الیکشن 2024: آپ کا ووٹ آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ ہاں، یہ کسی سیاسی پارٹی اور کچھ سیاست دانوں کی لاٹری ضرور نکال سکتا ہے۔

سِول پاکستان پارٹی کا موقف ہے کہ پاکستان کی ریاست، سیاست اور معیشت جس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں، وہاں عام انتخابات پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں کسی قسم کی مثبت سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلی لانے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور اس مرتبہ بھی ناکام رہیں گے۔

سِول پاکستان پارٹی کے نزدیک عام انتخابات بلا شک و شبہ ایک آئینی اور جمہوری تقاضا ہیں۔ مگر گذشتہ سات دہائیوں کی اقتدار پسند سیاست اور غیرسیاسی مداخلت نے آئینی اور جمہوری عمل میں اس قدر بگاڑ پیدا کر دیا ہے کہ جب تک آئینی اور جمہوری عمل کی شفافیت کو بحال نہیں کیا جاتا، اس وقت تک انتخابات کا انعقاد بے سود ہے۔

باایں سبب، سِول پاکستان پارٹی سمجھتی ہے کہ جب تک تین بڑے سٹیک ہولڈر ایک گرینڈ ڈائیلاگ (وسیع تر مکالمے) کا حصہ نہیں بنتے اور یہ گرینڈ ڈائیلاگ ایک سچائی اور مصالحت کمیشن کے قیام کا فیصلہ نہیں کرتا اور ایک نئے آئینی اور جمہوری عہد کی ابتدا کا عہد نہیں باندھتا، اس وقت تک عام انتخابات کی مشق محض ایک نمائشی فریضے کی انجام دہی تک محدود رہے گی۔

یہ یہی پس منظر ہے، جس میں سِول پاکستان پارٹی پاکستان کی بڑی آئین پسند اور جمہوریت پسند جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جمیعت العلمائے اسلام ف، اور عوامی نیشنل پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ پاکستان کے شہریوں کے وسیع تر مفاد میں انتخابات کے انعقاد کا تقاضا کرنے کے بجائے، ان کا بائیکاٹ کریں۔

اگر دو بڑی جماعتیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی، انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہیں، تو 8 فروری 2024 کو منعقد ہونے والے انتخابات اپنی افادیت کھو دیں گے۔ بلکہ اگر ان میں سے کوئی ایک جماعت بھی بائیکاٹ کرتی ہے، تو انتخابات کی سالمیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا۔

یہ چیز ایک کسوٹی بھی ہے کہ یہ دو بڑی جماعتیں یا دوسری جماعتیں پاکستان کے شہریوں سے کتنا مخلص ہیں، یا ان کی دلچسپی کسی بھی صورت صرف اقتدار میں ہے۔

بہرحال، یقینِ واثق یہی ہے کہ کوئی بڑی یا چھوٹی جماعت ان انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی۔

سو اگر بائیکاٹ نہیں ہوتا، تو پھر شہریوں کو کیا کرنا چاہیے۔ کیا انھیں بحیثیت ووٹر انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ کیا انھیں انتخابی عمل سے بے اعتنائی اور لاپروائی برتنی چاہیے۔

یہ ایسے سوالات ہیں، جن کا جواب شہریوں کو خود ڈھونڈنا ہے۔ کیونکہ یہ ہر شہری کا انفرادی عمل ہے۔ اور اس وقت تک انفرادی عمل رہے گا، جب تک کوئی سیاسی جماعت بطور ایک سیاسی جماعت ان انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کرتی، اور انتخابات کے بائیکاٹ کے عمل کو ایک اجتماعی عمل نہیں بنا دیتی۔

ہاں، مگر شہری انفرادی طور پر بھی اور مل جل کر بھی یہ ضرور کر سکتے ہیں، اور سِول پاکستان پارٹی ان سے درخواست کرے گی کہ جو امیدوار بھی ان کے پاس ووٹ مانگنے آئے، وہ درج ذیل سوالات اس امیدوار کے سامنے ضرور رکھیں، اور اصرار کریں کے وہ ان سوالوں کے جواب دے۔

شہریوں بخوبی جانتے ہیں کہ انتخابات کی اثنا میں سیاست دان جس قسم کے وعدے کرتے اور سبز باغ دکھاتے ہیں، وہ صرف ووٹ حاصل کرنے کا ایک حربہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور دو بڑی جماعتیں، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، اور استحکامِ پاکستان پارٹی ایک خوشنما وعدہ کر رہی ہیں۔ یعنی اگر یہ سیاسی جماعتیں حکومت میں آ جاتی ہیں، تو وہ بجلی کے 300 یونٹ مفت مہیا کریں گی۔ صاف بات ہے کیونکہ بجلی کے بل شہریوں کی جیب پر ایک بڑا بوجھ بن چکے ہیں، لہٰذا، لوگوں کا مفت بجلی کا خواب دکھایا جا رہا ہے۔

یہاں کچھ عمومی سوالات آپ کے سامنے رکھے جا رہے ہیں، جو ہر اس امیدوار سے پوچھے جا سکتے ہیں یا پوچھے جانے چاہییں، جو آپ سے ووٹ کا تقاضا کرنے آتے ہیں۔

۔ آپ حکومت کی جانب سے جو بھی شے مفت دینے کا وعدہ کر رہے ہیں، اس کی قیمت کون ادا کرے گا۔

حکومت کی آمدنی تو لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے ہوتی ہے، تو کیا وہ یہی پیسہ لوگوں کو جیسا کہ مفت بجلی کے نام پر لوٹانے کا فریب نہیں دے رہے؟

۔ بلکہ جس چیز کا بھی وعدہ کیا جاتا ہے، وہ مفت ہو یا کم قیمت ہو، اس کے بارے میں یہی سوال لازماّ پوچھا جانا چاہیے کہ اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا، یہ پیسہ کس کی جیب سے نکالا جائے گا۔

کیا ملکی بینکوں سے قرض لیا جائے گا؟ یا غیرملکی اداروں سے قرض لیا جائے گا؟ یا کوئی نیا ٹیکس لگایا جائے گا؟ یا پہلے سے عائد کسی ٹیکس کی شرح بڑھائے جائے گی؟

۔ ایک اور ضروری سوال یہ بھی پوچھا جانا چاہے کہ آپ جس چیز یا کام کا وعدہ کر رہے ہیں، اب تک آپ نے اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا؟

جیسا کہ 18ویں ترمیم 2010 میں آئین کا حصہ بنی تھی، آج 12، 13 برس گزر گئے ہیں اور اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ جن وزارتوں کو ختم کیا جانا ضروری تھا، انھیں اب تک ختم کیوں نہیں کیا گیا؟

۔ مزدور کی کم از کم اجرت کا وعدہ کرنے والوں سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ ایسا کرنے سے آپ کی حکومت پر تو کوئی بوجھ نہیں پڑے گا، تو آپ کاروباری لوگوں پر بوجھ کیوں ڈال رہے ہیں، جنھیں اپنے ہر ملازم کو یہ کم از کم اجرت ادا کرنا پڑے گی؟ اور یہ کہ آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا کہ عام کاروباری لوگوں کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ وہ یہ کم از کم اجرت ادا کر سکیں گے؟

مزید یہ بھی کہ کیا آپ کی حکومت نے اپنے ہر ملازم کی کم از کم تنخواہ مثال کے طور پر 50 ہزار روپے کر دی ہے، جو آپ مزدور کی کم از کم اجرت 50 ہزار روپے کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں؟

:۔ نہایت اہم سوال جو ہر سیاسی پارٹی کے دل پر ایک چھری کی طرح وار کر سکتا ہے، یہ ہو سکتا ہے

ایک: آپ کونسا یا کونسے ٹیکس ختم کریں گے؟

دو: آپ کونسے ٹیکس یا ٹیکسوں کی شرح کم کریں گے؟

تین: کیا آپ تمام ودہولڈنگ ٹیکس ختم کریں گے، کیونکہ تمام ودہولڈنگ ٹیکس غلط اور ناجائز ہیں؟

چار: کیا آپ جینرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی)، جس کی شرح 18 فیصد ہے، اور یہ ٹیکس ہر شے پر عائد ہے، اس جی ایس ٹی کی شرح 5 فیصد کریں گے؟

پانچ: کیا آپ پیٹرول، گیس اور بجلی پر عائد ٹیکس ختم کریں گے، یا ان کی شرح کم کریں گے؟

چھ: کیا آپ جائیداد کی رجسٹریشن اور منتقلی پر عائد ٹیکس ختم کریں گے، یا ان کی شرح کم کریں گے؟

سات: کیا آپ پراپرٹی ٹیکس کی شرح کم کریں گے؟

آٹھ: کیا آپ انکم ٹیکس کی قابلِ ٹیکس حد 25 لاکھ سے شروع کریں گے؟

نو: کیا آپ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، اور دوسری سرکاری دستایزات کے حصول پر عائد فیس کم کریں گے؟

دس: کیا آپ بجلی کے بلوں میں عائد کی گئی ٹی وی فیس ختم کریں گے؟

گیارہ: کیا آپ حکومت کے غیرترقیاتی اخراجات 50 فیصد کم کریں گے، تاکہ شہریوں پر ٹیکسوں کے بوجھ میں کمی آئے؟

بارہ: کیا آپ حکومت کے حجم یعنی سائز میں 50 فیصد کمی کریں گے، تاکہ شہریوں پر ٹیکسوں کو بوجھ کم ہو سکے؟

تیرہ: کیا آپ انکم ٹیکس کے ضمن میں دیے گئے تمام استثنا ختم کریں گے؟

:کچھ اور اہم سوال یہ ہو سکتے ہیں

۔ کیا آپ تھانہ کلچر بدلیں گے اور تھانوں کو شہری دوست خدمات کا مرکز بنائیں گے؟

۔ کیا آپ سرکاری مشینری یعنی سرکاری دفتروں اور بیوروکریسی کو شہری دوست اور شہریوں کا خادم اور خدمت گزار بنائیں گے؟

۔ کیا آپ بیوروکریسی کو سرکاری معاملات معمول یعنی روٹین کے مطابق کرنے کا پابند بنائیں گے، تاکہ شہریوں کے کام معمول کے مطابق اور کم سے کم وقت میں بغیر کسی سفارش اور رشوت کے انجام پا سکیں؟

۔ کیا آپ سرکاری ملازموں کی تنخواہ اور مراعات میں بہت بڑے فرق کو ختم کریں گے؟

جیسا کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو دورانِ ملازمت اور ریٹائر ہونے کے بعد بھی انتہائی پرکشش اور خطیر تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں؟ جبکہ کسی سرکاری ملازم کی کم از کم تنخواہ اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تنخواہوں کے درمیان فرق زمین اور آسمان کے فرق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور حکومت کی طرف سے یہ پرکشش اور خطیر تنخواہیں اور مراعات جنھیں بھی دی جاتی ہیں، اس کا بوجھ تو اصل میں شہریوں (کم تنخواہ کے حامل سرکاری ملازموں) کو بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ جو سوالات آپ کے ذہنوں میں موجود ہیں، وہ بھی ہر امیدوار کے سامنے رکھیں۔

ساتھ ہی ساتھ آپ کو سرکار کے ساتھ واسطہ پڑنے پر جن جن مسائل اور دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا ہے یا ہونا پڑتا ہے، اس سے متعلق بھی سوالات ہر امیدوار سے ضرور پوچھیں۔

یہی وقت ہے جب سیاست دان آپ کے پاس آتے ہیں، یعنی ووٹ مانگنے کی غرض سے۔ لہٰذا، ان کی زبان سے وعدے سننے کے بجائے، اپنے سوالات ان کے سامنے رکھیں۔

ڈاکٹر خلیل

چیف کنوینر

سِول پاکستان پارٹی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *