سول پاکستان پارٹی کیوں؟

  • مجھے کسی چیز کی تمنا نہیں۔ نہ پیسہ۔ نہ عہدہ۔ نہ شہرت۔ اگر مجھے ان چیزوں کی طلب ہوتی، تو میں شروع سے ان چیزوں کی جستجو کرتا۔
  • کالج میں داخلہ لیا تو دوستوں کا ایک ایسا حلقہ نصیب ہوا، جو مارکس پسند تھا۔ یوں تب سے ہی بائیں بازو کی جیسی بھی ٹوٹی پھوٹی سیاست تھی، اس کے ساتھ منسلک ہو گیا۔
  • اب تک گرد و پیش جو بھی دنیا جس بھی حالت میں موجود تھی، اسے جس حالت میں وہ تھی، اسی طرح قبول کر لیا تھا۔ مارکس کو پڑھ کر یہ بات ضرور سمجھ میں آ گئی کہ اس دنیا کو بدلا جا سکتا ہے۔
  • یہی شعور تھا، جس نے جینا مشکل بنا دیا۔ سب کچھ اتنا غلط کیوں ہے۔ یوں ایک آگ اندر سلگنے لگی کہ اس غلط کو صحیح کرنا ہے، بدلنا ہے۔
  • ایم اے کے دوران، چونکہ کچھ کلاس فیلو بھی سی ایس ایس کی تگ و دو میں تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی دو تین بار درخواست جمع کروائی۔ رول نمبر آیا۔ مگر اس کام کے لیے دل نہیں مانتا تھا۔ امتحان ہی نہیں دیا۔
  • نوکری کے بغیر گھر کی دال روٹی نہیں چل سکتی تھی۔ کئی نوکریاں کیں۔ مگر دل کہیں نہیں لگا۔
  • پھر ایک تھِنک ٹینک بنایا۔ پانچ چھ برس کام کیا۔ مگر تسلی نہیں ہو رہی تھی۔
  • ایک چیز جو بہت تکلیف دہ تھی، وہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کردار تھا۔ ان کی سیاست اقتدارپسندانہ سیاست تھی۔
  • گو کہ کبھی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں ہوا، مگر شروع میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ ہمدردی کا تعلق رہا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ یوں کہ یہ قدرے ترقی پسند تھی، اور ن لیگ کے ساتھ اس لیے کہ یہ قدرے معاشی اور کاروباری آزادی کے حق میں تھی۔
  • خاص طور پرتھنک ٹینک کے کام کے دوران خوب پڑھا اور خوب لکھا۔ توجہ پاکستان کی سیاست، معیشت اور ریاست پر تھی۔ یہ مضامین اردو اورانگریزی میں تھے۔ دو کتابچے بھی۔ پہلا کتابچہ قانون کی حاکمیت یا وکلا کی تحریک سے متعلق مضامین کا مجموعہ تھا۔ دوسرا ’’چارٹرآف لبرٹی‘‘ تھا، جس میں ’’چارٹرآف ڈیماکریسی‘‘ کے ادھورے پن پر تنقید بھی کی گئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کو آئین کی اعلٰ ترین قدر بنانے پر زور دیا گیا تھا۔
  • اب تھنک ٹینک کے کام سے مایوسی ہونے لگی تھی۔ میں چاہتا تھا، بالکل آزاد ہو کر یکسوئی کے ساتھ لکھوں۔ پاکستان کی ریاست، سیاست اور معیشت کے بارے میں، جو کچھ سمجھ میں آیا ہے، اسے لکھوں۔
  • ایک کتاب، پہلی کتاب مکمل ہوئی اور چھپ گئی۔ 2012 کے شروع میں: ’’پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج۔‘‘ اس کا موضوع پاکستان کی ریاست اور معیشت ہے، اور پاکستان کی معیشت کے ضمن میں ریاست کے کردار کو سمجھنے کے لیے ایک نظریہ بھی وضع کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ ریاستی اشرافیہ کس طرح ریاست کے وسائل پر قابض ہے۔
  • اسی برس، جولائی میں ایک اور کتاب مکمل اور شائع ہوئی: ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ و خم کا فلسفیانہ محاکمہ۔‘‘ اس کا موضوع پاکستان کی سیاست اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔
  • آہست آہستہ ایک سمت طے ہو رہی تھی، مجھے کیا کرنا ہے۔ اب میں تھنک ٹینک سے علاحدہ ہو چکا تھا۔
  • کچھ نہ کچھ مضامین بھی لکھ رہا تھا۔ دو کتابچے اور شائع کیے: پہلے کا موضوع پاکستان کی جمہوریت کا بانجھ پن ہے، یعنی یہ کہ جمہویت کا فائدہ لوگوں تک کیوں نہیں پہنچتا۔ دوسرے میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ  ریاست کو اپنا اولین اور اہم ترین فریضہ، یعنی ہر شہری کی جان ومال اور اس کے حقوق کا تحفظ، بہرحال پورا کرنا ہو گا۔
  • تاہم، ابھی تشنگی کا احساس تنگ کر رہا تھا۔ مذکورۂ بالا دونوں کتابیں ریاست، سیاست اور معیشت کے نظریے پر توجہ دیتی ہیں۔ مگر ریاست، سیاست اور معیشت کا معاشرے کے ساتھ کیا تعلق ہے، ابھی یہ معاملہ طے ہونا باقی تھا۔
  • یوں ایک اور کتاب پر کام شروع کیا۔ یہ اسی معاملے سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ کام 2017 میں مکمل ہوا اور ستمبر میں  دو جلدوں میں شائع ہوا: ’’عمرانی معاہدے کی تشکیلِ نو: انسانی معاشرے کی تنظیم کے اصول۔‘‘
  • یہاں پہنچ کر مجھے لکھنے پڑھنے سے ایک لاتعلقی سی محسوس ہونے لگی۔ جو معاملہ زیرِغور ہے، صرف اس میں دلچسپی باقی رہ گئی۔
  • استدلال یہ تھا کہ اگر علم و آگہی، ریاست، سیاست، معیشت اور معاشرے کو تبدیل کرنے میں مدد نہیں دے سکتے، تو پھر ان سے کوئی اور فائدہ ہوتا ہے، تو ہوتا رہے۔
  • ہاں، اس میں ایک مسئلہ درپیش ہے، یہ کہ بڑی تبدیلی، سیاست کی شاہراہ سے گزر کر آتی ہے۔ اور یہ کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ریاست، معیشت اور معاشرے سے متعلق علم و آگہی کو ایک سیاسی پیغام میں ڈھالنا ضروری ہے۔
  • یوں کم از کم ایک سمت تو واضح ہو کر سامنے آ گئی۔ یعنی یہ کہ کیا کرنا ہے۔
  • مگر مجھ ناچیز کی کیا حیثیت کہ اس بڑے کام پر ہاتھ ڈالوں۔ پہلے تو اسی احساس نے مایوس کیے رکھا۔
  • لیکن دوسری طرف سیاسی حقیقت اتنی بھیانک ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ اگر مجھ ناچیز نے بھی کچھ نہ کیا تو پھر کون کرے گا۔
  • سیاسی حقیقت کتنی بھیانک ہے، صرف ٰایک بات سامنے رکھ لیجیے: جب میں کالج جاتا تھا، تب بھی مناسب پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں تھی۔ بسیں بھری ہوئی، لوگ دروازوں کھڑکیوں میں لٹکے ہوئے۔ آج 45 برس بعد بھی مناسب پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں۔
  • کیا چار، پانچ، یا چھ، یا سات دہائیوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ، یا صاف پانی کی دستیابی کا مسئلہ، اور اس جیسے دوسرے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ کیوں حل نہیں ہوئے؟ کوئی حل کرنا ہی نہیں چاہتا۔
  • سب سے بڑا ایک مسئلہ، جس کی طرف میری توجہ گئی، اور مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ یہ کسی سیاسی جماعت کے ایجینڈے میں شامل ہی نہیں۔ یعنی عام لوگوں کا خون چوسنے والی ریاستی مشینری کی اصلاح اور اسے شہری دوست بنانے کا معاملہ۔ مجھ جیسے عام شہری اچھی طرح واقف ہیں کہ سرکاری دفتروں میں بیٹھی سرکاری جونکیں کس طرح ہمارا خون چوستی ہیں۔ یعنی ریاستی مشینری شہریوں کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
  • مزید، کیا سات دہائیوں کے بعد بھی لوگوں کو کم قیمت اور بروقت انصاف میسر آ رہا ہے۔ کیا یہ معاملہ کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
  • کیا اتنے برسوں میں تھانے اور پولیس شہری دوست بنے۔
  • کیا سرکاری سکولوں، کالجوں، اور ہسپتالوں کی حالت بہتر ہوئی۔
  • کیا ریاست، حکومت نے شہریوں کو معاشی اور کاروباری آزادی دی کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت تخلیق کریں، تاکہ افراد خوش حال ہو سکیں۔ اس کے برعکس، ریاست، حکومت کا زور بس ٹیکس نچوڑنے پر رہا۔ ریاستی اشرافیہ نے ’’جمہوریت‘‘ کو سونے کی کان بنائے رکھا۔
  • اگر پاکستان کی سیاست پون صدی میں پاکستان کے شہریوں کو اچھی حکمرانی (گُڈ گورنینس) تک نہیں دے سکی، تو پھر کب دے گی!
  • جہاں تک شہریوں کی جان و مال اور بنیادی حقوق کے تحفظ کا معاملہ ہے، ریاست کی ترجیحی فہرست میں اس فریضے کا کوئی ذکر نہیں۔ تو پھر لوگوں نے پاکستان کو اور کس مقصد کے لیے تشکیل دیا تھا!
  • ستر سے زیادہ برس ہو گئے، ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر سیاست جاری ہے، مگر یہ جمہوریت لوگوں کو کچھ نہیں دے سکی۔ اگر کچھ دیا بھی تو اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ بہت ہی زیادہ۔ نسلوں کی نسلیں بے مائیگی کی زندگی گزار کر ختم ہو گئیں، اور پھر بھی جو کچھ تھوڑی بہت خوش حالی لوگوں کو میسر آئی، اسے کھونے کا ڈر ہر وقت سر پر سوار رہتا ہے۔ اسی لیے تو لوگ ملک چھوڑنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
  • یہ ہے وہ پس منظر، جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر کچھ کرنا ہے تو وہ سیاست کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ یعنی کوئی سیاسی اقدام۔
  • یہ بات دوستوں، واقف کاروں، شناساؤں کے گوش گزار کی تو کچھ نے ہاں میں ہاں ملائی۔ کچھ نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ کچھ تو سیخ پا ہو گئے جیسے ان کی دم پر پاؤں آ گیا ہو۔ کچھ نے کہا تم ہو کون، تمہاری حیثیت ہی کیا ہے، تمہیں جانتا ہی کون ہے۔ کچھ نے کہا کماؤ، کھاؤ، اپنی زندگی گزارو، کیوں دماغ خراب ہو گیا ہے۔ کچھ نے میرا تمسخر اڑایا۔ کچھ نے کہا تمہاری عقل ماری گئی ہے۔ کچھ نے کہا ہمارے پاس وسائل نہیں۔ کچھ نہ کہا ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں۔ کچھ نے کہا یہ کام ہمارے بس کا نہیں۔ کچھ نے کہا یہ بہت بڑا کام ہے، تم نہیں کر سکتے۔
  • میں مایوس ضرور ہوا۔ مگر میں ثابت قدم رہا۔ کام جتنا بھی بڑا ہو، اس میں پہلا قدم تو ہوتا ہے نا، اور میں پہلا قدم اٹھا رہا ہوں۔
  • میں ناکامی سے نہیں ڈرتا۔ آج میں ناکام ہوتا ہوں، تو کل میرے جیسا کوئی کامیاب بھی ہو جائے گا۔
  • میں نے ’’سول پاکستان پارٹی‘‘ کا آئین لکھنا شروع کیا۔ کچھ دوستوں کا مشورہ شاملِ حال رہا۔ آئین مکمل ہو گیا۔
  • اب کیا کیا جائے؟ کئی برسوں سے اسی شش و پنج میں پڑا ہوں۔ ابتدا کیسے کروں۔ کہاں سے شروع کروں۔ کس چیز سے شروعات ہو۔
  • پھر یہ خیال آیا کہ اگر اس انتظار میں رہوں گا کہ کچھ دوست ساتھ دیں، اور پھر ان کی ہمراہی میں کوئی ابتدا کی جائے، تو ایسا تو ہونے سے رہا۔ اتنے برس اسی انتظار میں گزر گئے۔ ہر کسی کی اپنی اپنی دلچسپیاں اور ترجیحات ہیں۔ میں کیا کرنا چاہتا ہوں، یہ مجھے دیکھنا ہے، اور فیصلہ بھی مجھے کرنا ہے کہ کہاں سے ابتدا کی جائے۔
  • تو میں سوشل میڈیا سے شروعات کر رہا ہوں۔
  • فیس بُک اور ٹویٹر پر ’’سول پاکستان پارٹی‘‘ کا وجود ظاہر ہو گیا ہے۔
  • یہاں آخر میں کچھ باتوں کا اعادہ کرنا ضروری ہے: ’’سول پاکستان پارٹی‘‘ کی چار ترجیحات ہیں۔ اول، ریاستی مشینری کی اصلاح۔ دوم، کم قیمت اور بروقت انصاف کی فراہمی۔ سوم، معاشی و کاروباری آزادی کا فروغ۔ چہارم، شہریوں کی جان و مال اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات۔

  شکریہ!