آئین

سِول پاکستان پارٹی

[Civil Pakistan Party]

نام:

            اس سیاسی جماعت کا نام،”سِول پاکستان پارٹی“ ہے۔ اسے مختصراً،”سول پاکستان“ کے نام سے بھی پکارا، لکھا جا سکتا ہے۔ آگے جہاں کہیں بھی”پارٹی “کا لفظ استعمال ہو گا، اس سے”سول پاکستان پارٹی“مراد ہے۔

پرچم:

            سول پاکستان پارٹی کا پرچم، سفید رنگ مستطیل ہو گا، جس پر سبز رنگ کا چاند ستارہ نمایاں ہو گا۔ اس کے بائیں جانب کا ایک تہائی حصہ نیلے رنگ کا ہو گا۔ اس کی معیاری لمبائی چوڑائی کا تناسب چھ اور چار فٹ ہو گا؛ چاند تارے کا حجم بھی اسی تناسب سے ہو گا۔

فکر و فلسفہ:

            تمہید:

            سول پاکستان پارٹی سمجھتی ہے کہ قیام کے وقت سے ہی پاکستان کی سیاست کا محور شہریوں کی جان و مال، اور ان کے حقوق و آزادیوں کا تحفظ نہیں رہا۔ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود، پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ عام شہریوں کے لیے حالات میں خاطرخواہ بہتری آنا تو دور رہا، ان کے لیے زندگی مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

گوکہ اس دوران، مختلف و متعدد نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں، مگر وہ سب اشرافیہ اوراشرافی ریاست کے مفادات کی نگہبان بنی رہیں۔ یہی سبب ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت کی کمی اور ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے، جس کی سیاست، شہریوں کے تحفظ کے گرد گھومتی ہو، جو کسی بھی ریاست کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ سول پاکستان پارٹی، فکری اورعملی دونوں اعتبار سے، اس خلا کو پر کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

سول پاکستان پارٹی، اجارہ پسندانہ فکر کی نفی کرتی ہے، اور اپنی سعی و کاوش میں سیاست کو اخلاقیات سے جدا نہیں سمجھتی؛ بلکہ اخلاقی سیاست کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ اس بات کی قطعاً دعوے دار نہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف اس کے پاس ہے، اور جب یہ برسرِاقتدار آئے گی، تو اس حل پرعمل درآمد کرے گی۔

            سول پاکستان پارٹی، جن مقاصد کے حصول کے لیے قائم کی گئی ہے، اگر دوسری جماعتیں، یا کوئی حکومت، ان مقاصد سے اتفاق رکھتی ہے، اور ان پر عمل کرتی ہے، تو یہ نہایت خوش آئند بات ہو گی۔

            علاوہ ازیں، سول پاکستان پارٹی مختلف معاملات و مسائل سے متعلق اپنے موقف اور اندازِنظر کی توضیح و تشریح کے لیے ٹھوس جائزے اور تحقیق سے رجوع لائے گی اور پھر انھیں پارٹی کی طرف سے شائع بھی کرے گی۔

تاسیسی اہتمام :

            سول پاکستان پارٹی ایک مثالی سیاسی جماعت کے فکری اورعملی تصوریے (وژن) کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرے گی۔ یعنی سول پاکستان پارٹی اپنے طرزِعمل سے یہ دکھانا چاہے گی کہ ایک سیاسی جماعت کا کردار اور عمل کیسا ہونا چاہیے، اسے کیا کچھ کرنا چاہیے، اور کیسے کرنا چاہیے۔ اس بات کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں نے نہ تو شہریوں کو سیاسی تعلیم و شعور کا حامل بننے دیا، اور نہ ہی ذمے دار شہری؛ یہ انھیں صرف اپنے مقاصد و مفادات کے لیے استعمال کرتی رہیں، اور انھیں سیاسی محتاج اور شخصیت پرست گردانتی رہیں۔ سول پاکستان پارٹی ایسے طرزِسیاست کو رد کرتی ہے، جو شہریوں کو اپنے آلۂ کارکے طور پر استعمال کرنے سے عبارت ہے۔

            سول پاکستان پارٹی کے آئین میں غیربنیادی ترمیم کے ضمن میں اختیار، مرکزی کونسل کے پاس ہو گا، اور کسی ترمیم کے لیے مرکزی کونسل کے تین چوتھائی ارکان کی اکثریت ضروری ہو گی۔ تاہم، جہاں تک سول پاکستان پارٹی کے فکر و فلسفے، اقدار، مقاصد، اور ضابطہ ہائے طرزِ عمل کا تعلق ہے، ان میں کوئی بنیادی ترمیم و تبدیلی عمل میں نہیں لائی جا سکے گی، جو ان کے مفہوم و منشا کو تبدیل کر دے۔ اگر سول پاکستان پارٹی کے آئین میں ایسی کوئی ترمیم و تبدیلی عمل میں لائی جاتی ہے، تو اس کی توثیق باضابطہ طور پر عدالت (ترجیحاً اعلیٰ عدالت) سے کروانا ضروری ہو گا؛ اور یہ بھی کہ ایسی کسی توثیق کے خلاف، کوئی تنظیمی رکن، اعلیٰ عدالت سے رجو ع (اپیل) کر سکے گا۔ اور اگر کسی ترمیم و تبدیلی کی توثیق کسی اعلیٰ عدالت سے نہیں کروائی جاتی، یا کوئی اعلیٰ عدالت ایسی کسی ترمیم و تبدیلی کی توثیق نہیں کرتی، تو متعلقہ ترمیم و تبدیلی غیرموثر سمجھی جائے گی۔ یہی سبب ہے کہ سول پاکستان پارٹی کے ہر تنظیمی رکن کو سول پاکستان پارٹی کے آئین میں کسی ترمیم و تبدیلی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کا حق دیا جا رہا ہے۔

            واضح رہے کہ طرزِ عمل کا ضابطہ بھی، سول پاکستان پارٹی کے آئین کا جزوِ لاینفک ہے۔

            جیسا کہ سول پاکستان پارٹی، فرد کی آزادی پریقین رکھتی ہے، یہ اپنے ارکان کو بھی سول پاکستان پارٹی سے مختلف رائے رکھنے کے حق کا حامل سمجھتی ہے۔ سول پاکستان پارٹی کا ہر رکن اپنی رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے میں آزاد ہو گا؛ مگر کسی رکن کی رائے کو، خواہ وہ کسی بھی سطح کا عہدے دار ہو، سول پاکستان پارٹی کی رائے، یا موقف یا پالیسی نہیں سمجھا جائے گا۔ مختلف معاملات و مسائل سے متعلق سول پاکستان پارٹی کی رائے، موقف یا پالیسی کو مناسب بحث و مشاورت کے بعد تحریری طور پر پارٹی کے مرکزی دفترسے جاری کیا جائے گا۔

تصوریہ (وژن):

            سول پاکستان پارٹی کا تصوریہ، دو جہات کا حامل ہے۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کی ریاست کو جن فرائض کو اول اول پورا کرنا چاہیے تھا، اس نے وہ پورے نہیں کیے۔ دوسرے یہ کہ اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت برتنے کے ساتھ، ریاست اور حکومت دونوں نے ایسے کاموں پر کمر باندھے رکھی، جو شہریوں کی اکثریت کے مفاد میں نہیں تھے، اور انھیں سماجی و معاشی اور ثقافتی و لسانی نقصان پہنچاتے تھے۔

            مراد یہ کہ اول تو ذمے داری پوری نہ کر کے چوری کی گئی؛ دوم یہ کہ الٹا اکثریت کونقصان پہنچا کر سینہ زوری بھی کی گئی۔

            جبکہ اصل میں یہ شہریوں کی جان و مال، حقوق اوران کی آزادیوں کے تحفظ اورانصاف کی فراہمی کی قدر ہے، جو آئین سازی اور قانون سازی کی رہنمائی کرتی ہے؛ اور یہی وہ بنیاد ہے، جس پر ریاست اور اس کے اداروں کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ یہیں سے قانون کی حکمرانی اور بالادستی کا تصور اخذ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ خواہ یہ معیشت ہو، یا سماجی زندگی کے دوسرے پہلو، ہر معاملے کے ضمن میں یہی بات درست ہے۔ مراد یہ کہ ریاست کا کردار اصلاً ایک محافظ اور ضامن کا کردار ہے۔

            سول پاکستان پارٹی، ریاست کی اولین ، مقدم اور اعلیٰ ترین قدرکی حیثیت سے قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔ یہی وہ قدر ہے، جو دوسری چیزوں کے ہمراہ، معاشرے میں سماجی اور معاشی استحکام اور نسلی، ثقافتی، مذہبی اور گروہی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ اور قانون اور ریاست کی نظر میں شہریوں کو برابری کی سطح پرلاتی ہے۔

            جب بھی اورجہاں بھی اس قدرسے انحراف کیا گیا، ان معاشروں میں آہستہ آہستہ ناانصافی، نابرابری، محرومی، بے چینی، انتشار، افراتفری، اور حرص و ہوس کا دوردورہ ہو گیا؛ جیسا کہ پاکستان کی مثال سے عیاں ہے۔ قانون کی حکمرانی اور بالادستی کی عدم موجودگی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ مجرمانہ گروہ اور مجرمانہ مفادات جڑ پکڑنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا ہی ہوا، جہاں بالآخر، ریاست، سیاست اور معیشت سے جڑی ہر چیز، مجرمانہ گروہوں اور مجرمانہ مفادات کا مظہر بن گئی۔

            یہی وہ پس منظر ہے، جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ پاکستان میں ریاستی اختیار کا غلط استعمال کس دیدہ دلیری کے ساتھ کیا گیا، اور کیا جا رہا ہے؛ جبکہ یہ ریاستی اختیار منتخب اور نامزد، دونوں طرح کے کارگزاروں کو ایک امانت کے طور پرعطا ہوتا ہے۔ نہ صرف ریاستی اختیار، بلکہ ریاست نے شہریوں سے ٹیکسوں اور دوسرے مختلف ناموں کے تحت جو رقوم حاصل کیں، جنھیں صرف اور صرف شہریوں کی جان و مال اور ان کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا، منتخب اور نامزد دونوں طرح کے ریاستی اور حکومتی کارگزاروں نے اس کی سرعام بندربانٹ کی اور یہ بندربانٹ تاحال جاری ہے۔

            علاوہ ازیں، ریاست اورحکومت جن وسائل کی حامل ہوتی ہیں، اور جنھیں شہریوں کی اکثریت کے وسیع ترمفاد میں استعمال کیا جانا چاہیے، انھیں غیرمنصفانہ اندازمیں اشرافی طبقات کی خاطرکام میں لایا گیا، اور لایا جا رہا ہے۔ جیسے کہ ٹیکسوں اورضابطوں کے ذریعے فائدہ پہنچانا، زمینوں کی تقسیم، ٹیکسوں کی رقم کو ایسے منصوبوں پر خرچ کرنا، جو اکثریت کو فائدہ نہ پہنچاتے ہوں، وغیرہ۔

            سول پاکستان پارٹی کا تصوریہ ایک ایسے انقلاب کو متصور کرتا ہے، جو قانون کی حاکمیت کے تحت اور جمہوریت کے ذریعے، چیزوں کو بتدریج درستگی کی طرف لائے گا۔ اس انقلاب کے نمایاں خطوط درجِ ذیل ہیں:

            اولاً، جیسا کہ جو چیزیں ہونی چاہیے تھیں، اور نہیں ہوئیں، انھیں مستقل مزاجی اور اولیت کے ساتھ پورا کیا جائے گا۔ یعنی شہریوں کی جان و مال اور ان کے حقوق کے تحفظ، اور ان کے لیے انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کے ضمن میں، ہر وہ اقدام کیا جائے گا، جو مناسب اور ضروری ہو گا۔

            ثانیاً، جیسا کہ پاکستان میں ایسی چیزیں بھی ہوئیں، جو سرے سے نہیں ہونی چاہیے تھیں، ان کے تسلسل کا خاتمہ کیا جائے گا۔ یعنی تمام فیصلے اور اقدامات، اشرافی طبقات کے بجائے، اکثریت کے مفاد کو سامنے رکھ کر کیے جائیں گے۔

            سول پاکستان پارٹی کے تصوریے میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں، جنھیں یہ ترجیحاً کرنا چاہتی ہے۔ جیسا کہ:

            سول پاکستان پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ شہری، جو پیسہ دیانت داری کے ساتھ کماتے ہیں، اس پر بلاشرکت غیرے ان کا حق ہوتا ہے؛ اور یہ کہ اگر وہ اپنے پیسے کو اپنی پسند اور اپنی خوشی سے استعمال میں لائیں، تو وہ اپنی زندگی کو آزادی کے ساتھ بہتر بنا سکتے ہیں؛ بجائے اس کے کہ وہ پیسہ، ریاست کے پاس آ کر ایسے منصوبوں یا غیرضروری کاموں پر ضائع ہو، جن سے شہریوں کی اکثریت کو کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو۔ ہاں، ریاست ان پر جو ٹیکس عائد کرے گی، ان کی تعداد اور شرح کم سے کم رکھی جائے گی؛ اور اس پیسے کو اکثریت کے فائدے کے لیے شفاف اندازمیں کام میں لایا جائے گا؛ اور شہریوں کو ان سے لیے گئے پیسے کا مکمل حساب دیا جائے گا۔

            سول پاکستان پارٹی، پاکستان کے آئین پرمکمل یقین رکھتی ہے؛ تاہم، یہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ، آئین میں ترمیم و تبدیلی لانے کا اپنا حق محفوظ رکھتی ہے؛ اورا س کے لیے آئینی، قانونی، اور پرامن اور اخلاقی ذرائع کو استعمال میں لائے گی۔

اقدار:

            سول پاکستان پارٹی کی اولین اوراعلیٰ ترین قدر، قانون کی حکمرانی اوربالادستی ہے۔

            یوں یہ اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ کسی شخص، اشخاص، گروہ، یا طبقے کی حکومت نہیں۔ یا کسی فلسفے یا نظریے، یا نظامِ فکر کی حکومت نہیں۔ بلکہ اصل حکومت منصفانہ قوانین کی حکومت ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا کام، طرزِعمل کے ایک ضابطے پرعمل کروانا ہوتا ہے۔

            سول پاکستان پارٹی، جس دوسری بڑی قدر پر یقین رکھتی ہے، وہ ہے شخصی آزادی کی قدر۔

            جیسا کہ ہر فرد کو اپنی زندگی اپنے اندازسے گزارنے کا حق حاصل ہے، جسے پاکستان کا آئین بھی بنیادی حقوق کی صورت میں تسلیم کرتا ہے، اور جیسا کہ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ایک آزاد فرد ہی ایک ذمے دار فرد ہو سکتا ہے، لہٰذا، سول پاکستان پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ ہر فرد کے لیے آزادی اور ذمے داری کو یقینی بنائے بغیر، ایک اخلاقی، ذمے دار اور فرض شناس معاشرہ جنم نہیں لے سکتا۔

            جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ ریاست اور حکومت، ایک محافظ اور ضامن کے کردارکی حامل ہوتی ہیں، یہی سبب ہے کہ سول پاکستان پارٹی یہ بھی سمجھتی ہے کہ کاروبار اور معاشی سرگرمی کے میدان میں بھی ریاست اور حکومت کو ایک محافظ اور ضامن کا کردار نبھانا چاہیے۔

            پھر یہ کہ نہ صرف ٹیکسوں کی شرح اور تعداد کم سے کم کی جائے گی، بلکہ ٹیکسوں کے ایک ایسے نظام کی طرف پیش رفت کو ممکن بنانے کی کوشش کی جائے گی، جس میں ٹیکس عائد کرنے، یا کسی ٹیکس کی شرح بڑھانے سے پہلے لوگوں کی رائے کو پیشِ نظر رکھا جائے۔

            اسی طرح، سول پاکستان پارٹی یہ بھی سمجھتی ہے کہ وفاقیت کی روح صوبوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خودمختاری میں کارفرما ہے۔ اور یہ بھی کہ نہ صرف نئے صوبے بنانے میں کوئی ہرج نہیں، بلکہ صوبوں کے اندر بھی انتظامی اکائیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔

            سول پاکستان پارٹی، امن پسندی پر یقین رکھتی ہے۔ یہ اس کی تیسری بڑی قدر ہے، اور یہ دنیا میں پاکستان کو ایک امن پسند ملک کے طور پر منوانا چاہتی ہے۔

مقاصد:

            سول پاکستان پارٹی کے مقاصد درج ِ ذیل ہیں:

            پہلا مقصد: جان و مال اور حقوق و آزادیوں کا تحفظ

            سول پاکستان پارٹی سمجھتی ہے کہ 14 اگست،1947ء کو پاکستان کے شہریوں کو جس آزادی کا مژدہ سنایا گیا، وہ اس وقت تک نامکمل رہے گی، جب تک یہاں رہنے والے ہر فرد بشر کی جان و مال اور اس کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ یہ جان و مال کا تحفظ ہی ہے، جو فرد کو وہ آزادی مہیا کرتا ہے، جس کے عناصر بنیادی حقوق کی صورت میں ان تمام دساتیر کا حصہ رہے، جو بنے اور منسوخ ہوتے رہے۔ جبکہ 1973ء کے آئین میں بھی، بنیادی حقوق کی صورت میں فرد کو، جس شخصی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، عملاً ہر عام فرد بیشتراس آزادی سے محروم ہے۔

            یہی سبب ہے کہ ہر پاکستانی شہری کوجان و مال اور اس کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ مہیا کرنا، سول پاکستان پارٹی کی ترجیحات میں سرِفہرست ہو گا۔

            دوسرامقصد: بروقت اور کم قیمت انصاف کی فراہمی

            اگر ایک ریاست، شہریوں کو انصاف کی فراہمی میں کوتاہی کرتی ہے، خواہ وہ ایسا ارادی طور پر کر رہی ہو، یا غیرارادی طور پر، تو وہ ریاست اپنے وجود کا جواز کھو دیتی ہے۔ پاکستانی ریاست، اشرافی طبقات کو تو انصاف مہیا کرنے میں تاخیر نہیں کرتی، لیکن عام شہری برسوں عدالتوں کی خاک چھانتے ہیں، اور انصاف سے محروم رہتے ہیں۔ سول پاکستان پارٹی کی دوسری بڑی ترجیح، جو پہلی ترجیح سے اخذ ہوتی ہے، شہریوں کو بروقت اور کم قیمت انصاف فراہم کرنا ہے۔

            تیسرامقصد : شہری دوست اور خدمت گزار ریاستی مشینری

            پاکستانی جمہوریت، گوکہ بظاہر اشرافی طبقات کی ایک ناختم ہونے والی جنگ کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے، لیکن عملاً اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عام لوگ جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کی طرف نہ تو ریاست اور حکومت کوئی توجہ دیتی ہے، اور نہ کوئی سیاسی جماعت انھیں قابلِ اعتنا سمجھتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ سچائی ہے کہ عام لوگوں کے بیشتر مسائل خود ریاست اورحکومت کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ یعنی خود ریاستی مشینری، پاکستان کے شہریوں کی سب سے بڑی دشمن اور استحصالی ہے۔ یہ شہریوں کی زندگی کو سہل بنانے کے بجائے، انھیں ستانے، دبانے، تنگ کرنے، اور لوٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ ریاستی مشینری کو شہری دوست اور شہریوں کی خدمت گزار بنانا، سول پاکستان پارٹی کی تیسری بڑی ترجیح ہے۔ اس غرض سے پوری ریاستی مشینری کی اصلاح کی جائے گی۔

            چوتھا مقصد : ریاست کی تشکیلِ نو

            سول پاکستان پارٹی، پاکستانی ریاست کی تشکیلِ نو پر یقین رکھتی ہے، تاکہ اسے ”ریاستی اشرافیہ“ کے چنگل سے آزاد کروایا جائے، اور ایک ذمے دار ریاست بنانے کے ساتھ ساتھ، اسے ہر شہری کی جان و مال اور اس کے حقوق و آزادیوں کے بلاامتیاز تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے کام پر لگایا جائے۔ اس تشکیلِ نو کے کچھ خطوط اوپر بیان ہوئے۔ پاکستان کی ریاستی مشینری کو شہری دوست اور خدمت گزار بنانے کا کام، پاکستان کی ریاست کی تشکیلِ نو کے بغیر ممکن نہیں۔ مختصراً یہ کہ پاکستان کی ریاست سر کے بل کھڑی ہے، اسے سیدھا کرنا اس کی تشکیلِ نوکے مترادف ہے۔

مقاصد اور ذرائع :

            سول پاکستان پارٹی اپنے مقاصد کے ساتھ ساتھ، ان ذرائع کے انتخاب میں بھی بہت حساس اور محتاط ہے، جنھیں یہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اختیار کرنا چاہتی ہے۔

            مقاصد کے ضمن میں یہ یوں محتاط ہے کہ کہیں اس کے مقاصد، شہریوں کی آزادی میں مخل اور دخل انداز نہ ہوں۔ اسی طرح، یہ ذرائع کے ضمن میں بھی محتاط ہے کہ کہیں یہ اخلاقیات اور آئین و قانون کے خلاف صف آرا نہ سمجھے جائیں۔

            سول پاکستان پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ ذرائع کے انتخاب کا سوال، مقاصد سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ہر جماعت ہر قسم کے مقاصد کے لیے سرگرم ہو سکتی ہے، جو متوقع طور پر اپنے ارادے اور نتائج کے اعتبار سے منفی نہیں ہوں گے۔ مراد یہ کہ ہر کوئی ہر قسم کے اچھے مقاصد اپنا سکتا ہے، اور ان پر کسی کا اجارہ نہیں۔ مگر جب کوئی جماعت اپنے اچھے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے غیراخلاقی، غیرقانونی اور غیرآئینی ذرائع اختیار کرتی ہے، تو یہ ہر کسی کے لیے منفی ذرائع کے استعمال کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ یوں، ہر کسی کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے منفی ذرائع اختیار کرنے کا جواز مل جاتا ہے۔

            سول پاکستان پارٹی، معاشرے میں عدم استحکام کو کسی بھی صورت قبول کرنے کی روادار نہیں۔ اس کے پرچم میں نیلا رنگ اسی چیز، یعنی استحکام کی علامت ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ اصولاً ایک طویل المدت معاشرتی نظم پر یقین رکھتی ہے، اور ان ذرائع کو فروغ دینا چاہتی ہے، جو معاشرے میں اخلاقیات، قانون اور آئین کی بالادستی کو قائم کرتے ہیں۔

            ذرائع کے ضمن میں ایک اور معاملہ نہایت اہم ہے، اور یہ ہے تشدد کے استعمال کا حق۔

            سول پاکستان پارٹی سمجھتی ہے کہ تشدد، صرف اورصرف ریاست کا اختیار ہے، اور وہ بھی آئین اور قانون کے تحت۔ جبکہ کسی بھی فرد اور کسی بھی گروہ یا جماعت کو کسی بھی طرح کے حالات میں تشدد کے استعمال کا حق حاصل نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ریاست کے وجود میں آ جانے کے بعد، اس ریاست کے اندر رہتے ہوئے، کسی بھی معاملے پر کسی اختلاف کی صورت میں صرف اور صرف اخلاقی، قانونی، آئینی، اور پرامن راستہ ہی اپنایا جا سکتا ہے۔

            مختصریہ کہ سول پاکستان پارٹی، اصولاً عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے۔ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، سول پاکستان پارٹی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے، صرف اور صرف پرامن، قانونی، آئینی اور اخلاقی ذرائع اختیارکرے گی۔

مالیات:

            سول پاکستان پارٹی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے ارکان اور پاکستانی شہریوں کی طرف سے دیے گئے چندوں اور عطیات پر انحصار کرے گی۔

            بے نامی (ایسے لوگ جو عطیہ دیتے ہوئے بےنام رہنا چاہیں گے) عطیہ، چندہ، وغیرہ، قبول نہیں کیا جائے گا۔

تمام مالیات کا شفاف حساب کتاب رکھا جائے گا، اور ارکان و ہر کسی کے ملاحظے کے لیے دستیاب ہو گا۔ اسی غرض سے اسے پارٹی کی ویب سائیٹ پر چسپاں کیا جائے گا۔

            کل وقتی و جزوقتی عہدیداروں اور کارکنوں کو مشاہرہ دیا جائے گا۔

رکنیت:

            ہر فرد، جو پاکستانی شہری ہے اور قانونی طور پر بالغ ہے، بلاتخصیصِ جنس، سول پاکستان پارٹی کا رکن بن سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے ایک ”رکنیتی حلف نامے“ پر دستخط کرنا ہوں گے۔

            ایسا کوئی فرد، جو کسی سیاسی جماعت کا رکن ہے، صرف اس صورت میں سول پاکستان پارٹی کا رکن بن سکے گا، جب وہ اس جماعت سے باضابطہ علاحدگی اختیار کر چکا ہو۔

            سول پاکستان پارٹی کا رکن بننے کے لیے درخواست دینے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ درخواست دہندہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا، اور اگر کسی دوسری جماعت کا رکن تھا، تو وہ اس سے باضابطہ علاحدگی اختیار کر چکا ہے۔

            غلط بیانی کی صورت میں باقاعدہ کاروائی اور صفائی کا موقع دینے کے بعد ایسے درخواست دہندہ کی رکنیت، یا اگر متذکرہ شخص رکن بن چکا ہے، تو اس کی رکنیت منسوخ کی جا سکے گی۔

            رکنیت دو قسم کی ہوگی۔ عمومی رکن، پارٹی کے رکن تصور کیے جائیں گے، مگر وہ پارٹی کے انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ جبکہ وہ رکن، جو مقررہ چندہ ادا کریں گے، تنظیمی رکن کہلائیں گے، اور پارٹی انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کے اہل ہوں گے۔

            ہر تنظیمی رکن ایک ہزار روپیہ سالانہ رکنیتی چندہ ادا کرے گا۔

            تین برس تک چندہ ادا نہ کرنے کی صورت میں تنظیمی رکن کی رکنیت معطل ہو جائے گی۔ جبکہ بقایاجات کی ادائیگی پر یہ رکنیت بحال ہو جائے گی۔

            معطل تنظیمی رکن پارٹی انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کا اہل نہیں ہوگا۔

            معطل تنظیمی رکن پارٹی کے انتخابات میں صرف اس صورت میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کا اہل قرار پائے گا، جبکہ وہ پارٹی کے انتخابات کے انعقاد سے چھ ماہ قبل بقایا جات کی ادائیگی کر چکا ہو۔

            رکنیت سے دست بردار ہونے کے لیے سادہ کاغذ پر درخواست دی جا سکتی ہے۔ مگر کسی ذمے دار عہدیدار کے سامنے یا فون پر اس کی تصدیق کرنا ضروری ہو گا۔

            دہری شہریت کے حامل افراد، سول پاکستان پارٹی کے رکن بن سکتے ہیں۔ مگر وہ پارٹی میں کسی عہدے کے اہل نہیں ہوںگے۔

ضابطہء طرزِ عمل:

            سول پاکستان پارٹی کے ہر رکن (عمومی اور تنظیمی دونوں ارکان) کو درج ذیل حلف کی پاسداری کرنی ہو گی:

            * یہ کہ وہ سول پاکستان پارٹی کے فکر و فلسفے، تصوریے، اقدار اور مقاصد کے ساتھ وسیع ترمعنوں میں اتفاق رکھتا ہے۔

            * یہ کہ وہ سول پاکستان پارٹی کے مقاصد کے حصول کے لیے، اپنے ضمیرکے مطابق، اور آئینی و قانونی اندازمیں ساتھ دے گا۔

            اور وہ حلفاً یہ اقرار کرے گا کہ:

            * وہ پرامن احتجاج پر یقین رکھتا ہے۔

            * وہ جبر و تشدد پر یقین نہیں رکھتا۔

            * وہ نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر یقین نہیں رکھتا۔

            * وہ گلیوں اورسڑکوں پر ٹریفک میں خلل ڈالنے پر یقین نہیں رکھتا۔

            * وہ شہریوں کی روزمرہ مصروفیات اور کاروبار میں کسی قسم کی رکاوٹیں پیدا کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔

            * وہ اپنی عمومی یا تنظیمی رکنیت یا اگر وہ پارٹی میں کسی عہدے کا حامل ہے، تو اس عہدے کو کسی بھی مقصد یا کام کے حصول کی خاطر یا کسی فائدے یا مراعت کے حصول کی غرض سے استعمال میں نہیں لائے گا۔

            * اور یہ کہ جہاں تک اس کے ذاتی افعال واعمال کا تعلق ہے، ان کی ذمے داری خود اس پر ہو گی۔ اس ضمن میں پارٹی پر کسی قسم کی ذمے داری عائد نہیں ہو گی۔

۔۔۔ اختتام۔۔۔